Friday 9 September 2016

مرزا غالب

  • 1797-1869
  • دہلی

مرزا غالب


























  • 1797-1869
  • دہلی
عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔ سب سے زیادہ اشعار کے خالق                      
       
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا (ردیف .. ے)
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ (ردیف .. ا)
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار (ردیف .. ا)
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
سراپا رہن عشق و نا گزیر الفت ہستی (ردیف .. ا)
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب (ردیف .. ا)
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
درخور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گداۓ بے سر و پا ہیں (ردیف .. ا)
پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نا رسائی کا
گر نہ اندوہ شب فرقت بیاں ہو جائے گا
درد منت کش دوا نہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں (ردیف .. ا)
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
لب خشک در تشنگی مردگاں کا
تو دوست کسو کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے (ردیف .. ا)
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف (ردیف .. ا)
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
سرمۂ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے (ردیف .. ا)
غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں (ردیف .. ا)
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی (ردیف .. ا)
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے (ردیف .. ت)
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ (ردیف .. ت)
آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
گلشن میں بندوبست بہ رنگ دگر ہے آج
لو ہم مریض عشق کے بیمار دار ہیں (ردیف .. ج)
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی (ردیف .. ر)
ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں (ردیف .. ر)
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح و مہر (ردیف .. ز)
حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز
وسعت سعی کرم دیکھ کہ سر تا سر خاک (ردیف .. ز)
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے (ردیف .. س)
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے (ردیف .. ش)
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش (ردیف .. ف)
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس (ردیف .. م)
بہ نالہ حاصل دل بستگی فراہم کر (ردیف .. م)
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور (ردیف .. م)
لوں وام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے (ردیف .. ن)
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آ سکا (ردیف .. ن)
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت (ردیف .. ن)
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
برشکال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے (ردیف .. ن)
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں



ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں

کل کے لیے کر آج نہ خست شراب